اس نگری میں وہ بھی مگن تھا
اس نگری میں وہ بھی مگن تھا
لوہے جیسا جس کا بدن تھا
آج ہے وہ اک خشک شجر سا
کل جو رشک صحن چمن تھا
جنگل جنگل اس کی خوشبو
پھول وہ کب محدود چمن تھا
مجھ کو نہ آئی تلخ نوائی
شہد سے میٹھا میرا سخن تھا
دیکھا نہ اس میں اپنا چہرہ
میرے گھر میں جو درپن تھا
رکھوالوں نے ایسے لوٹا
پل میں خالی سب مخزن تھا
ہاتھ سے وہ بھی چھوٹ گیا ہے
مہر و وفا کا جو دامن تھا