جل گئے افکار تیرے میری تحریریں جلیں

جل گئے افکار تیرے میری تحریریں جلیں
اب نمائش کس کی ہوگی ساری تصویریں جلیں


جن کی بنیادوں میں اک تقدیس تھی تہذیب تھی
آج میرے شہر کی وہ ساری تعمیریں جلیں


یہ تو زنداں کے نگہباں ہی بتائیں گے تمہیں
کن اسیروں نے لگائی آگ زنجیریں جلیں


آتشیں صحرا میں میرے خواب تو محفوظ تھے
یہ نہیں معلوم کس گلشن میں تعبیریں جلیں


اب تو پھرتا ہے وفاؔ خانہ بدوشوں کی طرح
جو ملیں تھیں اس کو ورثے میں وہ جاگیریں جلیں