بچھڑا ہے کون مجھ سے کہاں یہ خبر نہ دو
بچھڑا ہے کون مجھ سے کہاں یہ خبر نہ دو
مڑ مڑ کے دیکھنا پڑے ایسا سفر نہ دو
دل کی بصیرتوں سے جو رشتہ ہی توڑ دے
آنکھوں کو میری دوستو ایسی نظر نہ دو
ہر شہر اور گاؤں میں جوہر شناس ہیں
وعدے تسلیوں کے یہ رنگیں گہر نہ دو
وہ پتھروں کے شہر سے آیا ہے لوٹ کر
شیشے کے گھر کہاں ہیں اسے یہ خبر نہ دو
نیزوں پہ جو بلند رہیں وہ قبول ہیں
قاتل کے آستاں پہ جھکیں ایسے سر نہ دو
مجھ سے کسی کے ناز اٹھائے نہ جائیں گے
شہرت مری وفا کو وفاؔ در بدر نہ دو