میرا دست آرزو پھیلا ہوا
میرا دست آرزو پھیلا ہوا
اور اس نے ہاتھ ہے کھینچا ہوا
دشت میں مجھ کو صدا دیتا ہے کون
کون آیا ہے یہاں بھٹکا ہوا
اتنا دوڑا ہوں سرابوں کی طرف
بہتے دریاؤں پہ بھی دھوکا ہوا
کیا اماں مانگوں میں اس سے جان کی
جانکنی میں ہے جو خود الجھا ہوا
جس طرف دیکھو جزیرے بن گئے
کیا سمندر بھی ہے اب سمٹا ہوا
قیس کی میراث میرے پاس ہے
ناقۂ لیلیٰ کو ڈھونڈو کیا ہوا
کچھ نہ تھا بس جدت الفاظ تھی
اس کا ہر مضمون بے معنی ہوا
میں نے ساری رات کی جس کی تلاش
صبح وہ سورج ملا ڈوبا ہوا
عہد تھا میرا تو پتھر کی لکیر
کچا دھاگا اس کا ہر وعدا ہوا