جو تجھ سے منسوب ہوا ہے
جو تجھ سے منسوب ہوا ہے
وہ سب کا محبوب ہوا ہے
شہر میں اس پر پتھر برسے
پھر بھی کب مرعوب ہوا ہے
آج سنا ہے میخانے میں
ہنگامہ تو خوب ہوا ہے
فرحت افزا جو ہوتا تھا
موسم وہ مرطوب ہوا ہے
کیسے پوچھوں اس سے آخر
کیوں مجھ سے محجوب ہوا ہے
کاغذ پر جو لکھتا رہا ہوں
فکر بھرا مکتوب ہوا ہے
فرد جرم لگی ہے کیسی
جس میں وفاؔ مطلوب ہوا ہے