وفا نقوی کی غزل

    میں رستے میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا

    میں رستے میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا وہیں تو دھوپ کا چہرہ کھلا تھا سبھی الفاظ تھے میری زباں کے مگر میں نے کہاں کچھ بھی کہا تھا وہ کس کے جسم کی خوشبو تھی آخر ہوا سے تذکرہ کس کا سنا تھا سمندر میں بہت ہلچل تھی اک دن سفینہ کس کا ڈوبا جا رہا تھا کہ جیسے خواب سا دیکھا تھا کوئی بس اتنا یاد ...

    مزید پڑھیے

    سفر آسان ہے لیکن اسے دشوار کرتے ہیں

    سفر آسان ہے لیکن اسے دشوار کرتے ہیں در و دیوار گھر کے یاد ہم سو بار کرتے ہیں انہیں تاریک راتوں سے نکل آئے گا اک سورج اندھیروں کے سفینے پر شب غم پار کرتے ہیں سمندر کے کنارے پر ٹھہرتے ہیں گھروندے کب عجب کار جنوں ہے آپ یہ بیکار کرتے ہیں بلا لیتے ہیں تاریکی وہ اپنے گھر کے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    بڑی اداس ہیں شامیں ترے وصال کے بعد

    بڑی اداس ہیں شامیں ترے وصال کے بعد کہ زخم پھر سے ابھر آئے اندمال کے بعد تمہاری بات ہی تسلیم کی بہر صورت زمانے بھر کے دماغوں نے قیل و قال کے بعد کہاں ہوں کون ہوں کیسا ہوں میں کہاں کا ہوں کوئی خیال نہ آیا ترے خیال کے بعد ہوئی نصیب نہ عزت حیات میں جس کو سجا ہوا تھا وہی گھر میں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کی تھا علامت اک ہنر بے جان سا

    زندگی کی تھا علامت اک ہنر بے جان سا رہ گیا تصویر کوئی دیکھ کر حیران سا تیری یادیں دفن کر دیتی ہیں اس کے زور کو روز اٹھتا تو ہے دل میں جا بہ جا طوفان سا رونق شہر ریا تاخیر ہونی تھی ہوئی راستے میں پڑ گیا تھا اک کھنڈر ویران سا آپ آئیں گے تو وحشت ساتھ لے کر آئیں گے راستہ آتا ہے میرے ...

    مزید پڑھیے

    یہ آرزو ہے رات کا منظر دکھائی دے

    یہ آرزو ہے رات کا منظر دکھائی دے پھر آسماں کا چاند زمیں پر دکھائی دے ہم سیر کر رہے ہیں خلاؤں کی رات دن ممکن نہیں کہ کوئی سمندر دکھائی دے میری شہادتوں کا کرشمہ تو دیکھیے اب تو لہو کی بوند بھی خنجر دکھائی دے مجھ کو سفر قبول ہے لیکن ہے ایک شرط میں جس طرف بھی جاؤں مرا گھر دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    بس یہی بات یہاں حرف ملامت کی ہے

    بس یہی بات یہاں حرف ملامت کی ہے میں نے دریا کی نہیں دشت کی بیعت کی ہے قتل سورج کو کیا وہ بھی چھپا کر خنجر شام والوں نے سحر میں یہ سیاست کی ہے ورنہ کیا ہم کو غرض حال تمہارا پوچھیں بات یہ کچھ بھی نہیں صرف محبت کی ہے ہم تو موجوں سے لڑے اور کنارے پہنچے ہم نے کب ڈوبتی کشتی کی حمایت کی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں اندھیرے کہیں روشنی سے ڈرتے ہوئے

    کہیں اندھیرے کہیں روشنی سے ڈرتے ہوئے تمام عمر گزاری ہے ہم نے مرتے ہوئے اڑا کے لے تو گئی شاخ سے سبھی پتے ہوا نے دکھ بھی نہ پوچھا مرا گزرتے ہوئے کہیں یہ خواب سی تصویر بول اٹھی تو خیال آیا مصور کو رنگ بھرتے ہوئے اسے تو بوجھ اٹھانا تھا اپنی ہستی کا وہ مسکرا نہ سکا آج بھی سنورتے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں یہ خواب مرا زندگی نہ بن جائے

    کہیں یہ خواب مرا زندگی نہ بن جائے چراغ بجھتا ہوا روشنی نہ بن جائے میں اس خیال سے روتا نہیں ہوں صحرا میں کہیں یہ دشت کسی دن ندی نہ بن جائے ارادہ کر تو رہے ہو اسے چلانے کا مگر یہ تیر تمہارا ہنسی نہ بن جائے عذاب وصل گوارا تو ہے ہمیں لیکن یہ ایک لمحہ رہے اک صدی نہ بن جائے عجیب رنگ ...

    مزید پڑھیے

    خاک ہوتی ہوئی تعمیر سے ڈر جاتے ہیں

    خاک ہوتی ہوئی تعمیر سے ڈر جاتے ہیں ہم بدلتی ہوئی تصویر سے ڈر جاتے ہیں رات کو چین سے سوتے ہیں مگر وقت سحر خواب کے وعدۂ تعبیر سے ڈر جاتے ہیں وہ سیاہی سے لکھی ہوتی ہے خوں سے تو نہیں پھر بھی کیوں آپ کی تحریر سے ڈر جاتے ہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں سڑکوں پہ اجالے لیکن گھر میں آتی ہوئی تنویر ...

    مزید پڑھیے

    اے خدا جب سے عطا کی تو نے پیشانی مجھے

    اے خدا جب سے عطا کی تو نے پیشانی مجھے سر اٹھانے میں ہوئی ہے کتنی آسانی مجھے اپنے دل میں ہی بسا رکھی ہے میں نے کائنات کوئی کہہ سکتا نہیں اب نقش ویرانی مجھے ایسے وحشت ناک منظر مجھ میں آتے ہیں نظر اب نہیں ہوتی کسی پر کوئی حیرانی مجھے سینکڑوں صدیوں سے صحرا کی صدا کے ساتھ ہوں راس آ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4