چراغ جب سے مرے تیرگی سے ہار گئے

چراغ جب سے مرے تیرگی سے ہار گئے
ہوا سے ہاتھ ملانے کو سارے یار گئے


ہر ایک بار سفر میرا مختصر کیوں تھا
سفینے مجھ کو ہی ساحل پہ کیوں اتار گئے


تری سرائے میں ساماں کہاں سکون کا تھا
کسی طرح سے مسافر بھی شب گزار گئے


میں جن کو سائے میں رکھتا تھا تپتے صحرا میں
غضب ہے لوگ وہی مجھ پہ سنگ مار گئے


ہوئی جو شام تو لوٹے وطن میں اپنے ہی
پرندے یوں تو بہت سرحدوں کے پار گئے


بریدہ سر ہی نہیں تھے لہو میں ڈوبے ہوئے
سنا ہے نیزے عدو کے بھی اشک بار گئے


بدن پہ سب کے قبائیں تھیں سرخ آنکھوں کی
عجب طرح سے خزاؤں میں گل عذار گئے