کبھی جو دھوپ ہمارے مکاں میں آ جائے
کبھی جو دھوپ ہمارے مکاں میں آ جائے
تو سایہ دار شجر بھی اماں میں آ جائے
میں شاہزادہ نہیں تو فقیر ہی بہتر
کہیں تو ذکر مرا داستاں میں آ جائے
میں تیرا نام سلیقے سے تو پکاروں مگر
خدا نخواستہ لکنت زباں میں آ جائے
کسے ڈبونا ہے اور کس کو پار کرنا ہے
شعور اتنا تو آب رواں میں آ جائے
میں ایک لمحے کو صدیوں کی زندگی سمجھوں
مرا یقیں جو حصار گماں میں آ جائے
جھلس چکا ہے بہت دھوپ میں بدن میرا
سو اس سے کہتا ہوں اب سائباں میں آ جائے
میں اپنی عقل سے کچھ اور کام لے لوں گا
کبھی یہ دل بھی مرا امتحاں میں آ جائے
سفر کی ساری اذیت پہ خاک اڑتی ہے
بھٹک کے کوئی اگر کارواں میں آ جائے
میں جس کو راز بتاتا ہوں اپنی خلوت کے
عجب نہیں کہ صف دشمناں میں آ جائے