موسم ہو کوئی یاد کے خیمے نہیں اٹھتے
موسم ہو کوئی یاد کے خیمے نہیں اٹھتے
صحرا سے ترے چاہنے والے نہیں اٹھتے
ہیں رقص کے عالم میں سلگتے ہوئے چہرے
ایسے تو کسی گھر سے جنازے نہیں اٹھتے
اک پیاس نے کیسا یہ مجھے توڑ دیا ہے
ہاتھوں سے مرے آج بھی کوزے نہیں اٹھتے
سورج کے طمانچے سے فلک جاگ گیا ہے
بستر سے مگر پھر بھی ستارے نہیں اٹھتے
گھر اپنے نمازی تو سبھی لوٹ گئے ہیں
مسجد سے مگر آج مصلے نہیں اٹھتے
مدت سے شب و روز کے ماتھے پہ لکھا ہے
آ جائیں جو اک بار زمانے نہیں اٹھتے
ہے اس کے عذابوں پہ کرم اس کا مسلط
رحمت کے کبھی گھر سے فرشتے نہیں اٹھتے