کہیں اندھیرے کہیں روشنی سے ڈرتے ہوئے

کہیں اندھیرے کہیں روشنی سے ڈرتے ہوئے
تمام عمر گزاری ہے ہم نے مرتے ہوئے


اڑا کے لے تو گئی شاخ سے سبھی پتے
ہوا نے دکھ بھی نہ پوچھا مرا گزرتے ہوئے


کہیں یہ خواب سی تصویر بول اٹھی تو
خیال آیا مصور کو رنگ بھرتے ہوئے


اسے تو بوجھ اٹھانا تھا اپنی ہستی کا
وہ مسکرا نہ سکا آج بھی سنورتے ہوئے


یہ زندگی کا بیاباں اگر اجازت دے
ذرا سی دھوپ اٹھا لوں یہاں ٹھہرتے ہوئے