میں رستے میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا
میں رستے میں جہاں ٹھہرا ہوا تھا
وہیں تو دھوپ کا چہرہ کھلا تھا
سبھی الفاظ تھے میری زباں کے
مگر میں نے کہاں کچھ بھی کہا تھا
وہ کس کے جسم کی خوشبو تھی آخر
ہوا سے تذکرہ کس کا سنا تھا
سمندر میں بہت ہلچل تھی اک دن
سفینہ کس کا ڈوبا جا رہا تھا
کہ جیسے خواب سا دیکھا تھا کوئی
بس اتنا یاد ہے کوئی ملا تھا
کھنڈر میں گھومتی پھرتی تھیں یادیں
اداسی کا عجب منظر سجا تھا
مری مٹی کی ہمت بڑھ گئی تھی
مرے رستے میں دریا آ گیا تھا