بس یہی بات یہاں حرف ملامت کی ہے

بس یہی بات یہاں حرف ملامت کی ہے
میں نے دریا کی نہیں دشت کی بیعت کی ہے


قتل سورج کو کیا وہ بھی چھپا کر خنجر
شام والوں نے سحر میں یہ سیاست کی ہے


ورنہ کیا ہم کو غرض حال تمہارا پوچھیں
بات یہ کچھ بھی نہیں صرف محبت کی ہے


ہم تو موجوں سے لڑے اور کنارے پہنچے
ہم نے کب ڈوبتی کشتی کی حمایت کی ہے


ابھی دالان میں اترے نہیں شب کے سائے
جانے والے نے سنا یہ ہے کہ عجلت کی ہے


اب اندھیرے ہی اندھیرے ہیں گلی کوچوں میں
چاند تاروں نے مرے شہر سے ہجرت کی ہے
یہ الگ بات کہ الفاظ ہیں اب بھی روشن
تیرے خنجر نے تو اس بار بھی جرأت کی ہے


اب اسے ڈھونڈنے نکلی ہیں برہنہ یادیں
جس نے کاغذ کے لباسوں کی تجارت کی ہے


میرے ہونٹوں پہ خموشی کے پڑے ہیں تالے
میری آنکھوں نے مری آج بھی شہرت کی ہے