زندگی کی تھا علامت اک ہنر بے جان سا

زندگی کی تھا علامت اک ہنر بے جان سا
رہ گیا تصویر کوئی دیکھ کر حیران سا


تیری یادیں دفن کر دیتی ہیں اس کے زور کو
روز اٹھتا تو ہے دل میں جا بہ جا طوفان سا


رونق شہر ریا تاخیر ہونی تھی ہوئی
راستے میں پڑ گیا تھا اک کھنڈر ویران سا


آپ آئیں گے تو وحشت ساتھ لے کر آئیں گے
راستہ آتا ہے میرے گھر پہ اک سنسان سا


پوچھنے آتا نہیں کوئی مرے حالات اب
میں وطن میں ہو گیا ہوں اپنے ہی انجان سا


جب سفر طے کر لیا تب اس کا اندازہ ہوا
دیکھنے کو راستہ تو تھا بہت آسان سا


کوئی پوچھے راہبر سے رخت جاں رخت سفر
قافلہ جاتا کہاں ہے بے سر و سامان سا


کاغذی پھولوں پہ تتلی کوئی آئی نہیں
میز پر رکھا ہوا تھا یوں تو اک گلدان سا