وشال کھلر کی غزل

    آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا

    آگ دریا کو اشاروں سے لگانے والا اب کے روٹھا ہے بہت مجھ کو منانے والا میرے چہرے پہ نئی شام کھلانے والا جانے کس اور گیا بزم سجانے والا نیند ٹوٹے تو اسے دیکھ کے آؤں میں بھی وہ ہے آنکھوں میں نئے خواب سجانے والا رات آنکھوں میں کٹی دن کو رہی بے چینی کیسا ہم درد ہوا درد مٹانے ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی انگلی پکڑے رہنا اچھا لگتا ہے

    وقت کی انگلی پکڑے رہنا اچھا لگتا ہے ہم کو چلتے پھرتے رہنا اچھا لگتا ہے ایک سمندر لاکھوں دریا دل میں اک طوفان شام و سحر یوں ملتے رہنا اچھا لگتا ہے کتنی راتیں سوتے سوتے گزریں خوابوں میں لیکن اب تو جگتے رہنا اچھا لگتا ہے سچ کے دروازے پر دستک دیتا رہتا ہوں آگ کی لپٹیں اوڑھے رہنا ...

    مزید پڑھیے

    میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے

    میرے دکھ کی دوا بھی رکھتا ہے خود کو مجھ سے جدا بھی رکھتا ہے مانگتا بھی نہیں کسی سے کچھ لب پہ لیکن دعا بھی رکھتا ہے ہاں چلاتا ہے آندھیاں لیکن موسموں کو ہرا بھی رکھتا ہے جب بھی لاتا ہے غم پرانے وہ ان میں حصہ نیا بھی رکھتا ہے

    مزید پڑھیے

    لمحہ لمحہ شور سا برپا ہوا اچھا لگا

    لمحہ لمحہ شور سا برپا ہوا اچھا لگا خامشی کی تان ٹوٹی واہمہ اچھا لگا آنکھوں آنکھوں میں ہوا اک حادثہ اچھا لگا ملنے والے کیوں تجھے یہ فاصلہ اچھا لگا کون جانے کون بوجھے داستاں در داستاں کچھ ہوا کا کچھ دئے کا حوصلہ اچھا لگا جان کی بازی لگا دی بھید کے کھلنے تلک عشق والوں کو ہمارا ...

    مزید پڑھیے

    میرا وہم و گمان رہنے دے

    میرا وہم و گمان رہنے دے سن مجھے بے زبان رہنے دے درد دل کامران رہنے دے اے محبت جوان رہنے دے مجھ میں اونچی اڑان رہنے دے میری حسرت جوان رہنے دے مردہ لوگوں کی بستیاں ویراں میرے جذبوں میں جان رہنے دے جا بجا جمع سورجوں کی بھیڑ مان اے آسمان رہنے دے ایک چپ سی لگی ہوئی اچھی رہنے دے ...

    مزید پڑھیے

    میں انساں تھا خدا ہونے سے پہلے

    میں انساں تھا خدا ہونے سے پہلے انا الحق کی انا ہونے سے پہلے صلہ تھا عمر بھر کی چاہتوں کا وہ اک لمحہ جدا ہونے سے پہلے نہ جانے کس قدر مصروف ہوگا ترا وعدہ وفا ہونے سے پہلے تو میری چاہتوں میں گم ہوا ہے میں خوشبو تھا ترا ہونے سے پہلے مری گہرائیوں میں راز تیرے میں برسا ہوں گھٹا ہونے ...

    مزید پڑھیے

    آؤ دیکھو یہیں ہے دروازہ

    آؤ دیکھو یہیں ہے دروازہ تھے جہاں ہم وہیں ہیں دروازہ لوٹتا ہوں نہ گھر کو جب تک میں بند ہوتا نہیں ہے دروازہ آج کل کیوں ہمیں ترے گھر کا یاد آتا نہیں ہے دروازہ دیکھ پاتے ہیں کب کوئی صورت آئنہ تو نہیں ہے دروازہ زندگی کے قریب جانے کا سن رہا ہوں کہیں ہے دروازہ

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2