حبس جب حد سے بڑھا جسم کے ویرانے میں

حبس جب حد سے بڑھا جسم کے ویرانے میں
روح نے بین کیا دل کے عزا خانے میں


ہائے وہ رنگ جو ابھرا مری بے دھیانی سے
ہائے وہ نقش جو بنتا گیا انجانے میں


اب کوئی حرف و معانی کی خبر کیا لائے
اب کہانی ہی کہاں ہے مرے افسانے میں


کوئی گتھی نہ کھلی ایک بھی عقدہ نہ کھلا
مسئلہ اور الجھتا گیا سلجھانے میں


کیسی خود رو تھی تری یاد جو آتی ہی رہی
در و دیوار دھڑکنے لگے کاشانے میں


طاق امید سے پیمانۂ فردا خالی
تشنگی بٹنے لگی ہے ترے مے خانے میں


فصل گل میں بھی ترا چاک گریباں نہ ہوا
کوئی آشفتہ مزاجی نہیں دیوانے میں