راز کا بزم میں چرچا کبھی ہونے نہ دیا

راز کا بزم میں چرچا کبھی ہونے نہ دیا
ہم نے اپنے کو تماشا کبھی ہونے نہ دیا


ہم کو اس گردش دوراں نے کہیں کا نہ رکھا
پھر بھی لہجے کو شکستہ کبھی ہونے نہ دیا


مے کدے میں بڑے کم ظرف تھے پینے والے
آنکھ کو ساغر و مینا کبھی ہونے نہ دیا


دل میں اک درد کا طوفان چھپائے رکھا
آنکھ سے راز کو افشا کبھی ہونے نہ دیا


روز جلنا ہے اسے روز جلانا ہے اسے
آتش شوق کو ٹھنڈا کبھی ہونے نہ دیا


عمر رشتوں کے تقاضے ہی نبھاتے گزری
زندگی نے مجھے اپنا کبھی ہونے نہ دیا


سب سے محفوظ مقام غم تنہائی ہے
فکر دنیا نے اکیلا کبھی ہونے نہ دیا