ہوائے شام چلے تو بکھرنے لگتی ہوں
ہوائے شام چلے تو بکھرنے لگتی ہوں
میں دشت دل سے سمٹ کر گزرنے لگتی ہوں
ازل سے تا بہ ابد ایک لمحہ میرا ہے
تری نگاہ میں جس دم ٹھہرنے لگتی ہوں
نظر کے لمس سے رنگ بدن چھپاتی رہی
میں تتلیوں کی طرح کیوں کہ مرنے لگتی ہوں
ملی فراق کے آئینے میں پناہ مجھے
وصال حرف میں ڈھل کر سنورنے لگتی ہوں
ورق پہ سادہ تمنا کے خال و خد ہیں مگر
میں سوچ کر تجھے کچھ رنگ بھرنے لگتی ہوں
جب آگہی کے خد و خال دیکھتی ہوں کبھی
تو اپنے حسن تحیر سے ڈرنے لگتی ہوں
اگر تو وعدہ نبھاتا نہیں تو اس لمحے
میں اپنے آپ سے بھی خود مکرنے لگتی ہوں