ہمیں لکھا بھی اگر حاشیے میں رکھا گیا
ہمیں لکھا بھی اگر حاشیے میں رکھا گیا
نظر نہ آئے جو اس زاویے میں رکھا گیا
ترے نصیب میں منزل کبھی نہ آئے گی
سفر تمام طرح دائرے میں رکھا گیا
ہوا کو یہ بھی بتایا کہ روشنی ہے کہاں
چراغ کو بھی ترے راستے میں رکھا گیا
انا کے نام پہ جب بن گیا صنم خانہ
خدا کو لا کے وہاں بت کدے میں رکھا گیا
ہوا یہ حال کہ بے حال ہو گئے ہم تو
بہ نام عشق عجب مرحلے میں رکھا گیا
عجیب ساعت دیدار تھی نگاہوں میں
سجا کے حیرتوں کو آئنے میں رکھا گیا
کوئی بیان دیا نہ کوئی صفائی دی
ہمارا نام مگر فیصلے میں رکھا گیا