Tariq Shaheen

طارق شاہین

طارق شاہین کی غزل

    جھپکی نہ آنکھ اور مقدر بدل دئے

    جھپکی نہ آنکھ اور مقدر بدل دئے ماچس کی اک سلائی نے منظر بدل دئے بے چہرگی کے کرب نے فکروں کے ہاتھ سے وہ آئنے بنائے کہ پیکر بدل دئے رکنے دیا نہ پاؤں کے چکر نے اک جگہ بستی کے ساتھ ساتھ کئی گھر بدل دئے جادوگروں نے شہر کی پہچان چھین لی جسموں کے ساتھ ساتھ کئی سر بدل دئے منزل کی ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہے

    ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہے وہ اب کپڑے بدلنا چاہتا ہے اسے پھولوں سے ہے کوئی شکایت وہ انگاروں پہ چلنا چاہتا ہے ٹھہر جاتے ہیں پلکوں پر ستارے کوئی طوفان ٹلنا چاہتا ہے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجھ میں کوئی لاوا پگھلنا چاہتا ہے تری آنکھیں کہاں دیکھی ہیں اس نے جو کلیوں کو مسلنا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ضرورت عجیب لگتی ہے

    یہ ضرورت عجیب لگتی ہے مجھ کو عورت عجیب لگتی ہے جب بھی بجھتے چراغ دیکھے ہیں اپنی شہرت عجیب لگتی ہے سرحدوں پر سروں کی فصلیں ہیں یہ زراعت عجیب لگتی ہے آگ مٹی ہوا لہو پانی یہ عمارت عجیب لگتی ہے میری آوارگی کو بوڑھوں کی ہر نصیحت عجیب لگتی ہے زندگی خواب ٹوٹنے تک ہے یہ حقیقت عجیب ...

    مزید پڑھیے

    اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا

    اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا کتنا دشوار ہے اے دوست اکیلے رہنا پاؤں پتھر کئے دیتے ہیں یہ میلوں کے سفر اور منزل کا تقاضہ ہے کہ چلتے رہنا بند کمرے میں کسی یاد کی خوشبو اوڑھے تم بھی غالبؔ کی طرح یاد میں ڈوبے رہنا بہتے رہنے سے تو دریاؤں میں کھو جاؤ گے جھیل بننا ہے تو اک موڑ پہ ...

    مزید پڑھیے

    رگ و پے میں اتر گیا سورج

    رگ و پے میں اتر گیا سورج جسم کو دھوپ کر گیا سورج دور ہی سے چمک رہے ہیں بدن سارے کپڑے کتر گیا سورج ایک لمحہ کی ہو گئی غفلت مجھ کو پتھر سا کر گیا سورج مجھ کو خوابوں میں باندھ کر رکھا اور ہنس کر گزر گیا سورج پانیوں میں چتائیں جلنے لگیں ندیوں میں اتر گیا سورج میں نے سایوں کی بھیک ...

    مزید پڑھیے

    روز پانی کہاں میسر ہے

    روز پانی کہاں میسر ہے زندگی ریت کا سمندر ہے کس قدر دل فریب منظر ہے ایک مینار اک کبوتر ہے راستوں میں سکون پاتا ہوں میرا گھر میرے گھر کے باہر ہے اپنی مٹھی تو کھول دوں لیکن میری مٹھی میں اک مقدر ہے تازہ سورج کی دین ہے یارو پھول کے ہاتھ میں بھی پتھر ہے روز یادوں کے پھول کھلتے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے

    کبھی یہ دار کبھی کربلا سا لگتا ہے مرا وجود کوئی سانحہ سا لگتا ہے ہر ایک سانس پہ زخموں کا اک ہجوم لئے مرے لہو میں کوئی دوڑتا سا لگتا ہے اتر رہا ہے مرے دل میں چیختا سورج یہ واقعہ تو کسی بد دعا سا لگتا ہے اسی کو زہر سمجھتے ہیں میرے گھر والے وہ آدمی جو مجھے دیوتا سا لگتا ہے بجھا ہی ...

    مزید پڑھیے

    بھولے بھالے انسانوں کا نام لکھا

    بھولے بھالے انسانوں کا نام لکھا کاغذ پر چنگیز لکھا بہرام لکھا سب نے رب کا نام لکھا تعویذوں پر لیکن میں نے اپنی ماں کا نام لکھا سوتے رہئے دھرتی کی چادر اوڑھے اپنے حق میں راوی نے آرام لکھا لوگوں نے کشمیر کی جھیلیں لکھی تھیں میں نے سلگتا اور جلتا آسام لکھا میلے ٹھیلے ڈھولک تاشے ...

    مزید پڑھیے

    نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

    نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے مرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے سمٹ جائیں تو دشمن کے مقابل ہماری قوم کا بچہ بہت ہے سمندر سے معافی چاہتے ہیں ہماری پیاس کو قطرہ بہت ہے اسی کے ...

    مزید پڑھیے