اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا
اپنی تنہائی کے سیلاب میں بہتے رہنا
کتنا دشوار ہے اے دوست اکیلے رہنا
پاؤں پتھر کئے دیتے ہیں یہ میلوں کے سفر
اور منزل کا تقاضہ ہے کہ چلتے رہنا
بند کمرے میں کسی یاد کی خوشبو اوڑھے
تم بھی غالبؔ کی طرح یاد میں ڈوبے رہنا
بہتے رہنے سے تو دریاؤں میں کھو جاؤ گے
جھیل بننا ہے تو اک موڑ پہ ٹھہرے رہنا
در و دیوار جہاں جان کے دشمن ہو جائیں
اور اسی گھر میں جو رہنا ہو تو کیسے رہنا
دشمنوں سے تو کبھی خوف نہ کھانا لیکن
مشورہ یہ ہے کہ احباب سے بچ کے رہنا
جانے کیا روگ لگا رکھا ہے تم نے طارقؔ
ہر جگہ ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے سے رہنا