موت بھی ہے یہی حیات بھی ہے
موت بھی ہے یہی حیات بھی ہے
زندگی دن کے ساتھ رات بھی ہے
کیوں نہ پھر دل کا احترام کریں
ہے یہ کعبہ تو سومنات بھی ہے
میں گنہ گار ہی سہی لیکن
اس میں شاید کسی کا ہات بھی ہے
ان کی اک اک ادا پہ مرتے ہیں
بے رخی بھی ہے التفات بھی ہے
ہجر کی رات تیرا کیا کہنا
ہاں نظر میں سہاگ رات بھی ہے
نہ بڑھاؤ تو بات کچھ بھی نہیں
بات ہی کیا ہے کوئی بات بھی ہے
بے ثباتی تو خود ہے ضد اپنی
بے ثباتی میں اک ثبات بھی ہے
جان دیتا تو ہے حیات پہ تو
کچھ ترا مقصد حیات بھی ہے
دام غم میں نفس نفس ہے اسیر
کسی صورت کہیں نجات بھی ہے
دل شکستہ نہ ہو زمانے سے
زندگی جیت بھی ہے مات بھی ہے
زندگی ننگ کائنات سہی
زندگی فخر کائنات بھی ہے
جان لیوا بھی اک طرف ہے وہ شوخ
اک طرف حاصل حیات بھی ہے
بات یوں تو ذرا سی ہے طالبؔ
بات اپنی جگہ پہ بات بھی ہے