جہاں میں مست الست انتخاب کیا کرتے

جہاں میں مست الست انتخاب کیا کرتے
سبو و شیشہ و جام شراب کیا کرتے


ہر ایک ذرہ ہے آئینہ دار حسن صنم
نگاہ غور سے ہم انتخاب کیا کرتے


ہے انقلاب کی تفسیر دفتر ہستی
ہم اس صحیفے سے پھر اکتساب کیا کرتے


فروغ حسن سے خیرہ نگاہ عشق ہوئی
تجلیوں کو وہ زیر نقاب کیا کرتے


یہ ہے وہ نعمت نایاب جو ہے جان حیات
لٹا چکے جو متاع شباب کیا کرتے


کہاں وہ ہمتیں باقی کہاں وہ دل وہ دماغ
سلف کا حال میں پیدا جواب کیا کرتے


رہین جنبش موج فنا ہے کشتیٔ عمر
اٹھا کے سر یہاں مثل حباب کیا کرتے


ازل سے رو بہ تغیر نظام عالم ہے
بپا ہم اس میں کوئی انقلاب کیا کرتے


ہے کار زار عمل گرم چار سو طالبؔ
متاع وقت کی مٹی خراب کیا کرتے