تمام کیف ترنم بغیر ساز ہوں میں

تمام کیف ترنم بغیر ساز ہوں میں
جو بے نیاز حقیقت ہے وہ مجاز ہوں میں


مرے نیاز کی عظمت کسی کو کیا معلوم
مزاج‌ ناز ہے مجھ سے دماغ ناز ہوں میں


تجھے گمان کہ پردہ بہ پردہ تیرا وجود
مجھے یقین کہ راز درون راز ہوں میں


بدل گیا ہے تخیل ہی عشق کا ورنہ
نیاز مند ہے تو اور بے نیاز ہوں میں


مری خطا تھی نہ دیتے اگر نگاہ مجھے
نگاہ دی ہے تو مجبور امتیاز ہوں میں


دکھائے بھی تو حقیقت کہیں مجھے وہ مقام
جہاں پہ قائل مجبوریٔ مجاز ہوں میں


ہنوز روز ازل سے زباں پہ جاری ہے
نہیں جو ختم وہ افسانۂ دراز ہوں میں


دل غنی کو مرے حرص و آز سے نسبت
برنگ سبزۂ بیگانہ بے نیاز ہوں میں


مجاز اپنی جگہ مظہر حقیقت ہے
حقیقتوں سے جو بالا ہے وہ مجاز ہوں میں


عبث یہ کاوشیں دیر و حرم کو ہیں مجھ سے
ہزار رند سہی پھر بھی پاکباز ہوں میں


ملا کے آنکھ ذرا اس طرف ہو محو کلام
یہ کیا کہا کہ حقیقت ہے تو مجاز ہوں میں


بہت لطیف ہیں میری حقیقتیں طالبؔ
حجاب ساز میں گویا نوائے ساز ہوں میں