میں کئے جاؤں گا تقصیر کہاں تک آخر

میں کئے جاؤں گا تقصیر کہاں تک آخر
تو نہ دے گا مجھے تعزیر کہاں تک آخر


میرے ہر حرف کی تفسیر کہاں تک آخر
جذبۂ شوق کی تشہیر کہاں تک آخر


یہ کسی طور بھی پابند نہیں ہو سکتی
پائے تخییل میں زنجیر کہاں تک آخر


نقل پھر نقل ہے کیا اصل سے نسبت اس کو
دل کو بہلائے گی تصویر کہاں تک آخر


دیر تو ہوتی ہے اندھیر نہیں ہوتا ہے
یوں سہی پھر بھی یہ تاخیر کہاں تک آخر


میں تو ہر رات نئے خواب کے لیتا ہوں مزے
آپ فرمائیں گے تعبیر کہاں تک آخر


اسے شرمندۂ ایثار و عمل ہونے دے
کام دے گی تری تقریر کہاں تک آخر


اور الجھیں گے تشدد سے مسائل اے دوست
یہ ہر اک بات میں شمشیر کہاں تک آخر


حرف آتا ہے مری ہمت مردانہ پر
شکوۂ گردش تقدیر کہاں تک آخر


جانے کیوں چشم کرم پھر گئی تیری مجھ سے
میں رہوں خستہ و دلگیر کہاں تک آخر


کبھی ہوگا بھی اثر میری دعا میں شامل
اف یہ محرومیٔ تاثیر کہاں تک آخر


کچھ اضافہ بھی تو لازم ہے ادب میں ہمدم
یہ فقط پیروی‌‌ میرؔ کہاں تک آخر


کبھی راضی بہ رضا ہو کے بھی دیکھو طالبؔ
ہر نفس کوشش و تدبیر کہاں تک آخر