بصد شکوہ بصد آن بان نکلے گی

بصد شکوہ بصد آن بان نکلے گی
ہمارے ساتھ زمانے کی جان نکلے گی


یہ زندگی کے قرینے سے آشکارا ہے
کہ اپنی موت بھی عظمت نشان نکلے گی


مجھے یقین ہے اپنی وفا پہ کچھ اتنا
تری جفا بھی مری ہم زبان نکلے گی


زبان کھل گئی میری کہیں جو محشر میں
ہر ایک حرف سے اک داستان نکلے گی


جو زندگی کی بلا تھی وہ ٹل گئی سر سے
کسے خبر تھی اجل مہربان نکلے گی


جہاں کریں گے کبھی قصد سر اٹھانے کا
زمیں بھی اپنے لئے آسمان نکلے گی


ضرور ہوگا سبب کوئی بد گمانی کا
ضروریات کوئی درمیان نکلے گی


جہاں زباں کو ملے گا نہ اذن گویائی
وہاں ہماری نظر ترجمان نکلے گی


گداز عشق ہے کس میں ہوس پرست ہے کون
نگاہ دوست پئے امتحان نکلے گی


کسی کی صورت معصوم دے گئی دھوکا
خیال تھا کہ بہت بے زبان نکلے گی


وہ دل جو تنگ بظاہر ہے اس قدر ہمدم
اسی میں وسعت کون و مکان نکلے گی


سدا بہار گلستاں ہے شاعری اپنی
خدا رکھے یہ ہمیشہ جوان نکلے گی


یہ مطمئن نہ کبھی ہو سکے گی اے طالبؔ
نگاہ دوست بہت بد گمان نکلے گی