Tahir Adeem

طاہر عدیم

طاہر عدیم کی غزل

    ہجر کی رعنائی مجھ سے چھین لی

    ہجر کی رعنائی مجھ سے چھین لی یاد نے تنہائی مجھ سے چھین لی آنکھ کھلتے ہی تمہاری یاد نے ٹوٹتی انگڑائی مجھ سے چھین لی اس کے ہونٹوں کی شفق نے آج پھر قوت گویائی مجھ سے چھین لی ہاتھ میں اس نے تھمایا اک دیا اور پھر بینائی مجھ سے چھین لی دل میں جینے کی جو خواہش تھی کبھی تو نے وہ ہرجائی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے وہ چھوڑ کر جب سے گیا ہے انتہا ہے

    مجھے وہ چھوڑ کر جب سے گیا ہے انتہا ہے رگ و پے میں فضائے کربلا ہے انتہا ہے مرے حالات ہیں ناراض اس پہ کیا کروں میں گریزاں آسمانوں سے دعا ہے انتہا ہے غم و آلام ہیں یا حسرتیں ہیں زندگی میں تمہارے بعد باقی کیا بچا ہے انتہا ہے فقط تم ہی نہیں ناراض مجھ سے جان جاناں مرے اندر کا انساں تک ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کر دے سر بہ سر مولا

    روشنی کر دے سر بہ سر مولا اس کی آنکھوں میں نور بھر مولا صرف تیرا اسے سہارا ہو صرف تیرا ہی اس کو ڈر مولا اس کی خوش قسمتی رہے دائم اس سے قائم ہے میرا گھر مولا اس کی پرواز ہو ثریا تک کر دے مضبوط اس کے پر مولا نیکیاں ہوں قریب اور قریب دور اس سے ہوں سارے شر مولا شب تیرہ میں میرے کمسن ...

    مزید پڑھیے

    بلا جواز نہیں ہے غرور آنکھوں میں

    بلا جواز نہیں ہے غرور آنکھوں میں بسا ہوا ہے کوئی تو ضرور آنکھوں میں تسلیوں کا چراغاں شفیق ہونٹوں پر محبتوں کی انوکھی سطور آنکھوں میں وضوئے دید جدائی میں بھی میسر ہے ہیں گرچہ دور مگر ہیں حضور آنکھوں میں کہ رات دودھیا چادر میں خواب لپٹے تھے تمام دن تھا رہا اس کا نور آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    وہ نہیں یارو کسی بھی بات میں

    وہ نہیں یارو کسی بھی بات میں جیت کر بھی جو مزہ ہے مات میں ہر کسی کے گرد لوگوں کا ہجوم ہر کوئی تنہا ہے اپنی ذات میں دیکھنے والے انہیں پڑھ غور سے ایک اک دنیا ہے ان ذرات میں کھا گئی اب تک یہ کتنے آفتاب راز ہے مضمر عجب اس رات میں بے گناہوں کے لہو کی سرخیاں جا بجا بکھری ہیں اخبارات ...

    مزید پڑھیے

    بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں

    بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں اے مکین شہر دل آ مری حدود میں پڑ گئی دراڑ سی کیا درون دل کہیں آ گئی شکستگی کیوں مرے وجود میں خواہش قدم کہ ہوں اس طرف ہی گامزن دل کی آرزو رہے اس کی ہی قیود میں رنگ کیا عجب دیا میری بے وفائی کو اس نے یوں کیا کہ میرے خط جلائے عود میں تو نے جو دیا ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی کا ہے بدن یا ہے بدن میں چاندنی

    چاندنی کا ہے بدن یا ہے بدن میں چاندنی جب اترتا ہے اترتی ہے چمن میں چاندنی تیرگی جب پاؤں پھیلائے تو پھر سننا اسے باندھ کر رکھتا ہے وہ اپنے سخن میں چاندنی جب بھی لکھتا ہوں قلم سے پھوٹتی ہے روشنی گھول دی ہے کس نے دشت فکر و فن میں چاندنی یار کی شہر بتاں میں اک نشانی یہ بھی ہے چاند ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3