بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں
بجھ رہی ہے آنکھ یہ جسم ہے جمود میں
اے مکین شہر دل آ مری حدود میں
پڑ گئی دراڑ سی کیا درون دل کہیں
آ گئی شکستگی کیوں مرے وجود میں
خواہش قدم کہ ہوں اس طرف ہی گامزن
دل کی آرزو رہے اس کی ہی قیود میں
رنگ کیا عجب دیا میری بے وفائی کو
اس نے یوں کیا کہ میرے خط جلائے عود میں
تو نے جو دیا ہمیں اس سے بڑھ کے دیں گے ہم
بے وفائی اصل زر نفرتوں کو سود میں
بام انتظار پر دیکھتا ہوں دو دیئے
جھانکتا ہوں جب کبھی رفتگاں کے دود میں