ہجر کی رعنائی مجھ سے چھین لی

ہجر کی رعنائی مجھ سے چھین لی
یاد نے تنہائی مجھ سے چھین لی


آنکھ کھلتے ہی تمہاری یاد نے
ٹوٹتی انگڑائی مجھ سے چھین لی


اس کے ہونٹوں کی شفق نے آج پھر
قوت گویائی مجھ سے چھین لی


ہاتھ میں اس نے تھمایا اک دیا
اور پھر بینائی مجھ سے چھین لی


دل میں جینے کی جو خواہش تھی کبھی
تو نے وہ ہرجائی مجھ سے چھین لی


دست دنیا نے کبھی تقدیر نے
چیز جو بھی بھائی مجھ سے چھین لی


ان مشینوں نے مشینی دور نے
خوبی و زیبائی مجھ سے چھین لی