چاندنی کا ہے بدن یا ہے بدن میں چاندنی

چاندنی کا ہے بدن یا ہے بدن میں چاندنی
جب اترتا ہے اترتی ہے چمن میں چاندنی


تیرگی جب پاؤں پھیلائے تو پھر سننا اسے
باندھ کر رکھتا ہے وہ اپنے سخن میں چاندنی


جب بھی لکھتا ہوں قلم سے پھوٹتی ہے روشنی
گھول دی ہے کس نے دشت فکر و فن میں چاندنی


یار کی شہر بتاں میں اک نشانی یہ بھی ہے
چاند سا چہرہ ہے اس کا اور من میں چاندنی


روشنی کے استعارے ہیں کہانی میں سبھی
نام اس کا ہے کہانی کے متن میں چاندنی


وہ سنورتا جا رہا ہے سامنے طاہر عدیمؔ
اور برستی جا رہی ہے دل کے بن میں چاندنی