روشنی کر دے سر بہ سر مولا

روشنی کر دے سر بہ سر مولا
اس کی آنکھوں میں نور بھر مولا


صرف تیرا اسے سہارا ہو
صرف تیرا ہی اس کو ڈر مولا


اس کی خوش قسمتی رہے دائم
اس سے قائم ہے میرا گھر مولا


اس کی پرواز ہو ثریا تک
کر دے مضبوط اس کے پر مولا


نیکیاں ہوں قریب اور قریب
دور اس سے ہوں سارے شر مولا


شب تیرہ میں میرے کمسن کے
حوصلوں کو بلند کر مولا


یہ مجھے اس قدر ضروری ہے
جیسے گھر کے لیے ہو در مولا


بر ضرورت تسلیوں کے لیے
دوڑ کر آئیں بحر و بر مولا


صرف کہنا ہے لفظ کن تو نے
صرف لگنا ہے لمحہ بھر مولا


حال دل جب بتا دیا تجھ کو
یوں لگا ہو گئی سحر مولا


اور جو کچھ نہ کہہ سکا بابا
کہہ رہی ہے یہ چشم تر مولا


سب کو یہ کہہ دیا ہے طاہرؔ نے
میرا کوئی نہیں مگر مولا