Tahir Adeem

طاہر عدیم

طاہر عدیم کی غزل

    جو تری بندگی سے ملتا ہے

    جو تری بندگی سے ملتا ہے لطف وہ کم کسی سے ملتا ہے ہے یہ کافی ترا مرا شجرہ ایک ہی آدمی سے ملتا ہے لاکھ برہم ہو وہ مگر یارو پھر بھی شائستگی سے ملتا ہے دن کو لگتا ہے دھوپ اس کا مزاج رات کو چاندنی سے ملتا ہے اب تو مجھ کو وہ میری رگ رگ میں دوڑتی سنسنی سے ملتا ہے ہوں مہ و مہر یا نجوم ...

    مزید پڑھیے

    نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا

    نہ دیواریں ہیں اور نہ در پرانا ابھی تک پھر بھی ہے یہ گھر پرانا ڈرا دیتا جگا دیتا ہے مجھ کو درون ذہن بیٹھا ڈر پرانا مراحل آخری تعلیم کے ہیں مری ماں نے نکالا زر پرانا تماشا پھر وہی امسال ہوگا وہی دستار ہوگی سر پرانا سجا ماتم کنار دشت مژگاں سنا قصہ وہ چشم تر پرانا اگر ہے دسترس ...

    مزید پڑھیے

    مصیبت سر سے ٹلتی جا رہی ہے

    مصیبت سر سے ٹلتی جا رہی ہے ہماری عمر ڈھلتی جا رہی ہے کہاں ہے زندگی اب زندگی میں فقط اک نبض چلتی جا رہی ہے مسلسل بھاپ بن کر اڑ رہا ہوں مسلسل آگ جلتی جا رہی ہے عجب ہے سانحہ جینے کی خواہش مرے دل سے نکلتی جا رہی ہے خفا کیوں ہیں مرے حالات مجھ سے ہوا کیوں رخ بدلتی جا رہی ہے یہ سانسیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے

    ہر ایک رستۂ پایاب سے نکلنا ہے سراب عمر کے ہر باب سے نکلنا ہے سر عناصر کمیاب سے نکلنا ہے شمار نادر و نایاب سے نکلنا ہے طویل تر سے کسی خواب میں اترنے کو ہر ایک شخص کو اس خواب سے نکلنا ہے لہو لہو سر مژگاں طلوع ہونا ہے کنار خطۂ پر آب سے نکلنا ہے اسے بھی پردۂ تہذیب کو گرانا ہے مجھے ...

    مزید پڑھیے

    کسی خاموش چہرے پر وہ اطمینان کا منظر

    کسی خاموش چہرے پر وہ اطمینان کا منظر جگر کو کاٹتا ہے اب بھی قبرستان کا منظر عذاب شدت کرب جدائی کو وہ کیا جانے کہ دیکھا ہی نہ ہو جس نے نکلتی جان کا منظر اٹھی کرسی کٹا سبزہ گرے پتے اڑی چڑیاں تمہارے بعد کیا سے کیا ہوا دالان کا منظر کہاں ہوں کون ہوں یہ پوچھتا پھرتا ہوں لوگوں سے کہ ...

    مزید پڑھیے

    تیری چاہت میں مر کے دیکھوں گا

    تیری چاہت میں مر کے دیکھوں گا کام یہ بھی میں کر کے دیکھوں گا چھین سکتا ہے کون مجھ سے تجھے جاں ہتھیلی پہ دھر کے دیکھوں گا غیر ممکن ہے چاند کو لانا پھر بھی کوشش میں کر کے دیکھوں گا تیری آنکھوں میں خود کو پاؤں گا رخ پہ تیرے سنور کے دیکھوں گا رکھ کے آنکھوں میں ہجر کو تیرے پھر تصور ...

    مزید پڑھیے

    اسیر بحر و بر کوئی نہیں ہے

    اسیر بحر و بر کوئی نہیں ہے جہاں میں مختصر کوئی نہیں ہے ہے دھڑکا سا مرے سینے میں لیکن در امید پر کوئی نہیں ہے مرا سایا سمٹ آیا ہے مجھ میں مرا اب ہم سفر کوئی نہیں ہے حوادث بھی وہیں ہم بھی وہیں ہیں مگر اب چشم تر کوئی نہیں ہے نظر ہی بام پر میری نہیں یا نظر کے بام پر کوئی نہیں ہے بجز ...

    مزید پڑھیے

    یہ مسکراتے تمام سائے ہوئے پرائے تو کیا کرو گے

    یہ مسکراتے تمام سائے ہوئے پرائے تو کیا کرو گے ہوا نے جب بھی مرے بدن کے دیے بجھائے تو کیا کرو گے تمہاری خواہش پہ عمر بھر کی جدائیاں بھی قبول کر لوں مگر بتاؤ بغیر میرے جو رہ نہ پائے تو کیا کرو گے وہ جن میں میرے عذاب تیرے سراب ابھرے یا خواب ڈوبے وہ سارے لمحے تمہاری جانب پلٹ کے آئے ...

    مزید پڑھیے

    اقرار کا مطلب ہو کہ انکار کے معنی

    اقرار کا مطلب ہو کہ انکار کے معنی کوئی تو ہو سمجھے مری گفتار کے معنی اس جیسا کوئی ہو تو کہے اس کی مثالیں ہو یار سا کوئی تو کرے یار کے معنی یہ جسم دل و جاں تو ہیں بن مانگے ہی تیرے پھر کیا ہیں ترے دست طلب گار کے معنی اک وہ کہ اٹھاتا گیا بنیاد برابر اک میں کہ سمجھتا گیا دیوار کے ...

    مزید پڑھیے

    مایوسی میں دل بیچارہ صدیوں سے

    مایوسی میں دل بیچارہ صدیوں سے ڈھونڈ رہا ہے ایک سہارا صدیوں سے ایک ہی بات عبث دہرائے جاتا ہے تن میں چلتا سانس کا آرا صدیوں سے ہیرؔ اگرچہ میں نے اپنی پالی ہے ڈھونڈ رہا ہوں تخت ہزارا صدیوں سے تم سے کیسے سمٹے گا یہ لمحوں میں دل اپنا ہے پارہ پارہ صدیوں سے کس اعلان کو گونج رہا ہے نس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3