وہ نہیں یارو کسی بھی بات میں
وہ نہیں یارو کسی بھی بات میں
جیت کر بھی جو مزہ ہے مات میں
ہر کسی کے گرد لوگوں کا ہجوم
ہر کوئی تنہا ہے اپنی ذات میں
دیکھنے والے انہیں پڑھ غور سے
ایک اک دنیا ہے ان ذرات میں
کھا گئی اب تک یہ کتنے آفتاب
راز ہے مضمر عجب اس رات میں
بے گناہوں کے لہو کی سرخیاں
جا بجا بکھری ہیں اخبارات میں
آؤ کاٹیں کیک کو امسال بھی
آنسوؤں کی اس بھری برسات میں
بچ کے رہنا ہم سے اے دشت جنوں
اس کا سایا ہے ہمارے سات میں
اے سفیران ضیا اب تم کہو
اب کے سورج ہے ہمارے ہات میں
باب میں اس کے ہے طاہرؔ آج بھی
ایک سناٹا سا کائنات میں