آدرش
منتخب زیست کے لئے منزل کب سے کی ہے مری نگاہوں نے کب سے بخشی ہے زندگی مجھ کو فکر کی ان حسین راہوں نے میرے ہر سمت راہ میں حائل معصیت کی کشش معیشت کی میری قسمت ہے کاوش ہستی جستجو مجھ کو آدمیت کی یک قدم یک ہزار فرسنگ است
منتخب زیست کے لئے منزل کب سے کی ہے مری نگاہوں نے کب سے بخشی ہے زندگی مجھ کو فکر کی ان حسین راہوں نے میرے ہر سمت راہ میں حائل معصیت کی کشش معیشت کی میری قسمت ہے کاوش ہستی جستجو مجھ کو آدمیت کی یک قدم یک ہزار فرسنگ است
زندگی تدبیر درماں کے سوا کچھ بھی نہیں ایک پیہم کاوش جاں کے سوا کچھ بھی نہیں اپنے بس میں روشنی ہے اپنے بس میں تیرگی زندگی خود سعیٔ انساں کے سوا کچھ بھی نہیں عقل لرزاں ہر قدم پر اپنی ناداری سے ہے جذبۂ دل شورش جاں کے سوا کچھ بھی نہیں علم و عرفاں کی ہم آہنگی صبور دل سے ہے عقل و دانش ...
زندگی کے حسن کا پیغام تھا پیغام شوق دیدۂ حیراں میں رقصاں تھی محبت کی بہار اس ہجوم کشمکش سے بے خبر تھی بزم ذوق مجھ کو تھا سب نو بہ نو رنگینیوں پر اختیار جب سحر کے پھوٹتے ہی شام کا تھا انتظار اک ہجوم شوق سے تھا جب ہمارا دل گداز ان دنوں کب زندگی کی تلخیاں تھیں آشکار کیف زا تھا دو ...
سوز الفت کا آسرا لے کر عمر اتنی گزار دی میں نے حسن کی جاں گداز راہوں پر دل کی دنیا نثار کی میں نے زندگی کے حسین لمحوں میں میری محبوب گیت گاتی تھی چاندنی آبشار میں دھل کر ہدیۂ شوق لے کے آتی تھی تلخی زیست کا وجود نہ تھا پاس وادی میں تھی رہ تکمیل سرمدی زیست طوف کرتی تھی اپنی تخئیل ...
اجنبی راہگزر سوچتی ہے کوئی دروازہ کھلے ہر طرف درد کے لمبے سائے راستے پھیل گئے دور گئے دھڑکنیں تیز ہوئیں اور بھی تیز اجنبی راہگزر سوچتی ہے کوئی محجوب نظارہ ابھرے اور مجبور فقیروں کی طرح ہر قدم چلتی ہے دستک دستک ہر نفس ایک نئی راہ ہر اک سمت میں بھاگی لیکن جس طرح وصل کا ہر لمحہ ...
کیف وصال کی وہی دنیا نصیب ہو ہمدم کبھی کبھی یہ دعا مانگتا ہوں میں مٹ جائے جسم و روح کی جس سے یہ غیریت بیگانۂ وفا یہ وفا مانگتا ہوں میں اس شعلہ ساز گیت کی شدت کو پا کے بھی کیوں مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا مانگتا ہوں میں
شب کی تاریک رہ گذاروں میں سوکھتے ہیں امید کے دھارے جل رہا ہے شباب کا خرمن ٹوٹتے ہیں امید کے تارے اس فضا میں مہیب پیکر ہیں دل کی بستی اجڑتی جاتی ہے اب ہوا ان حسین راہوں پر ایک عفریت بن کے آتی ہے
نہ جانے میرے دل کی خود فریبی کیوں نہیں جاتی تخیل سے حسیں خوابوں کے منظر گم نہیں ہوتے مری جاں سے فسون سوز و غم چھن کیوں نہیں جاتا نہ جانے میرے دل کی خود فریبی کیوں نہیں جاتی وہی غربت وہی مشکل وہی ویراں فضائیں ہیں وہی مظلوم انساں ہیں وہی بے بس دعائیں ہیں نظام بزم انساں میں وہی ظالم ...
پیار کی منزل دور ہے پیارے رگ رگ جاگے خون کا دھارا جب تک آس ہے باقی ساز پر رقص سناؤ گیت خوشی کا گاؤ ناحق درد لبادہ اوڑھے کب کب دکھ کا تحفہ دو گے دل خوں ہو جائے گا جو بھی ہے لے آؤ گیت خوشی کا گاؤ اونچا اونچا اڑنے والو پگلے پن سے حاصل کیا ہے دیکھو نیچے نیچے دیکھو جلدی جلدی آؤ گیت خوشی ...
ایشیا جاگ اٹھا خواب گراں سے کیسے دل نشیں جسم میں اک زہر کا طوفان لئے کینچلی بدلے ہوئے سانپ کی پھنکار لئے ہر شقاوت کے لئے موت کا سامان لئے ایشیا جاگ اٹھا اہل مشرق کو نئی زیست کی پھر سے ہے تلاش یہ تڑپتے ہوئے گونگے یہ بلکتے حیواں اپنے آقاؤں کے دیرینہ غلاموں کی یہ لاش ظلم توڑا کیا ...