ایشیا جاگ اٹھا

ایشیا جاگ اٹھا خواب گراں سے کیسے
دل نشیں جسم میں اک زہر کا طوفان لئے
کینچلی بدلے ہوئے سانپ کی پھنکار لئے
ہر شقاوت کے لئے موت کا سامان لئے
ایشیا جاگ اٹھا
اہل مشرق کو نئی زیست کی پھر سے ہے تلاش
یہ تڑپتے ہوئے گونگے یہ بلکتے حیواں
اپنے آقاؤں کے دیرینہ غلاموں کی یہ لاش
ظلم توڑا کیا انسان پہ صدیوں انساں
زیست بے نور چراغوں میں سے لو دے اٹھی
اک کرن سرد اندھیرے میں سے ضو دے اٹھی
ایشیا جاگ اٹھا
اہل مشرق کی ترقی کے پیمبر لرزے
کپکپانے لگے ایوانوں کے سنگین ستوں
وہ جہاں ناز بھی نخوت ہے مسرت بھی غرور
جن میں نکھرا کیا انساں کی تعلی کا جنوں
سالہا سال سے تپتے ہوئے فولاد کے راز
سالہا سال سے فنکاروں کے ترشے ہوئے بت
رہ نہ جائے کہیں مشرق میں ہی مغرب کی یہ رت
اہل مشرق پہ شقاوت کی کوئی حد ہی نہیں
اپنے دشمن کی ذلالت کی کوئی حد ہی نہیں
ایشیا جاگ اٹھا
اپنی ذلت کے سمیت اپنی حفاظت کے لئے
اس قدامت کے سمیت اپنی ثقافت کے لئے
ایشیا ارض مقدس بھی فروزاں ہوگی
ہم غریبوں کی غمیں زیست بھی تاباں ہوگی
ایشیا جاگ اٹھا جاگ اٹھا جاگ اٹھا