فریب نظر
سوز الفت کا آسرا لے کر
عمر اتنی گزار دی میں نے
حسن کی جاں گداز راہوں پر
دل کی دنیا نثار کی میں نے
زندگی کے حسین لمحوں میں
میری محبوب گیت گاتی تھی
چاندنی آبشار میں دھل کر
ہدیۂ شوق لے کے آتی تھی
تلخی زیست کا وجود نہ تھا
پاس وادی میں تھی رہ تکمیل
سرمدی زیست طوف کرتی تھی
اپنی تخئیل کی حسیں تمثیل
زندگی کے حسین لمحوں کی
زندگی خود رقیب بن بیٹھی
یاں میسر نہ ہو سکی تکمیل
منزل شوق ناتمام رہی
دل بھی راز حیات پا نہ سکا
تلخی زیست دور ہو نہ سکی
زندگی یوں فریب دیتی ہے
اپنی بخشش کو چھین لیتی ہے
سرمدی زیست مجھ کو مل نہ سکی
ایک دھندلا سا خواب ہو جیسے
روز و شب یوں گزار دیتا ہوں
زندگی اک سراب ہو جیسے
سرمدی زیست اور وہ تکمیل
اپنی تخئیل کی حسیں تمثیل
دور تاروں کی رہ گزار میں ہے
کہکشاں کے حسیں غبار میں ہے