کچھ دن سے اٹھ رہی ہے دل و شہر جاں سے خاک
کچھ دن سے اٹھ رہی ہے دل و شہر جاں سے خاک
جب ہم ہرے بھرے ہیں تو آئی کہاں سے خاک
پھر بھی یہ دل دھڑک اٹھا اس کی پکار پر
گو اس پہ لا کے ڈالی تھی سارے جہاں سے خاک
چہرہ اٹا ہے دھول سے خالی ہیں دونوں ہاتھ
تم آ رہے ہو چھان کے آخر کہاں سے خاک
ہم اس لئے بھی اس سے ملاتے نہیں نظر
نسبت زمین کو ہے بھلا آسماں سے خاک
کل تک ہرا بھرا تھا ترا دل مرا دماغ
اب کیسے اڑ رہی ہے یہاں سے وہاں سے خاک
آئندہ میرے ساتھ یہاں رفتگاں بھی ہوں
سو میں ہٹا رہی ہوں ہر اک داستاں سے خاک
جس بت کو میرا عشق نہیں رام کر سکا
وہ ہو سکے گا موم تمہارے بیاں سے خاک