ستارہ ہو کہ آنسو بس چمک ہے

ستارہ ہو کہ آنسو بس چمک ہے
لگا لے شرط مجھ سے جس کو شک ہے


کہاں تک آپ کو جانا ہے کہیے
نظر کا راستہ تو دل تلک ہے


تلاطم خیز کر دے ان کی دھڑکن
مری چوڑی میں ایسی بھی کھنک ہے


محبت سے اسے منسوب مت کر
مرے لہجے میں جو تھوڑی لچک ہے


میں اتنی دور بھی تم سے نہیں ہوں
ہمارے درمیاں کچھ ہے تو شک ہے