یہ آسماں زمیں کے ہونٹ چومتا ہوا نہ ہو

یہ آسماں زمیں کے ہونٹ چومتا ہوا نہ ہو
کسے خبر ہے کل تلک یہاں پہ کیا ہو کیا نہ ہو


وہ مجھ سے مل کے بھی کسی سے وصل کی دعا کرے
عجیب پیڑ ہے جو پانی پی کے بھی ہرا نہ ہو


یہ دستکیں کواڑ پر برس رہی ہیں جس طرح
کواڑ ہی کی نبض آشنا کوئی ہوا نہ ہو


وہ کم سخن سہی مگر کوئی تو اور بات ہے
خموشیوں کی آڑ میں وہ درد سہہ رہا نہ ہو


میں تم سے اپنے دل کی واردات کہہ تو دوں مگر
اگر ہمارا راستہ یہیں کہیں جدا نہ ہو


گلے لگا رہی ہو تو خیال بھی رہے افقؔ
تمہیں جو عشق لگ رہا ہے اصل میں بلا نہ ہو