Shayar Jamali

شاعر جمالی

شاعر جمالی کی غزل

    ہوائیں تیز تھیں ماحول گرد گرد نہ تھا

    ہوائیں تیز تھیں ماحول گرد گرد نہ تھا رخ حیات کبھی اتنا زرد زرد نہ تھا تھا انتشار ازل ہی سے آدمی کا نصیب مگر سماج کبھی اتنا فرد فرد نہ تھا جو تیرے ہجر میں اٹھتا تھا دل میں رہ رہ کر وہ کیف وصل سے بڑھ کر تھا درد درد نہ تھا مکالموں میں ترے زیست کی حرارت تھی ترا سلوک کبھی اتنا سرد سرد ...

    مزید پڑھیے

    آج کا وعدہ یوں ہی کل پہ اٹھائے رکھئے

    آج کا وعدہ یوں ہی کل پہ اٹھائے رکھئے غم نصیبوں کو بہر حال جلائے رکھئے خون کے گھونٹ پئے جائیے صہبا کے عوض کچھ نہ کچھ بزم کا ماحول بنائے رکھئے حال کے غم کا نہیں اس کے سوا کوئی علاج اپنے ماضی کو کلیجے سے لگائے رکھئے جانے کب مانگ لے وہ اپنی محبت کا صلہ کم سے کم اتنا لہو دل میں بچائے ...

    مزید پڑھیے

    بادلوں میں بجلیاں کوندیں اجالا ہو گیا

    بادلوں میں بجلیاں کوندیں اجالا ہو گیا کم نظر کہنے لگے اٹھو سویرا ہو گیا ڈھلتے سورج کی شعاعوں کا کرشمہ تھا کہ میں دشت میں خود اپنے سائے سے بھی چھوٹا ہو گیا پوچھنا چاہو تو پوچھو اس سے تنہائی کا غم بھیڑ میں رہتے ہوئے جو شخص تنہا ہو گیا ہائے وہ صدیاں جو لمحوں میں سمٹ کر رہ ...

    مزید پڑھیے

    راہیں ویران تو اجڑے ہوئے کچھ گھر ہوں گے

    راہیں ویران تو اجڑے ہوئے کچھ گھر ہوں گے دشت سے بڑھ کے مرے شہر کے منظر ہوں گے یوں ہی تعمیر اگر ہوتے رہے شیش محل ایک دن شہر کی ہر راہ میں پتھر ہوں گے دشت میں ہم نے یہ مانا کہ ملیں گے وحشی شہر والوں سے تو ہر حال میں بہتر ہوں گے کیا خبر تھی کہ گلابوں سے حسیں ہونٹوں پر زہر میں ڈوبے ...

    مزید پڑھیے

    اے جنوں تیرا ابھی تک نہ مقدر بدلا

    اے جنوں تیرا ابھی تک نہ مقدر بدلا شہر بدلا نہ کسی ہاتھ کا پتھر بدلا زندگی بخش دی جب قتل مجھے کر نہ سکا میرے قاتل نے بہت تیز یہ خنجر بدلا ہو گئی راہ جنوں پھر کسی سازش کا شکار مجھ کو لگتا ہے ہر اک میل کا پتھر بدلا میں تو سمجھا تھا یہاں فن کی پرستش ہوگی چند سکوں کا اچھلنا تھا کہ ...

    مزید پڑھیے

    کلیسا یا حرم میں اور نہ ویرانوں میں ملتا ہے

    کلیسا یا حرم میں اور نہ ویرانوں میں ملتا ہے جو سچا آدمی ہے صرف مے خانوں میں ملتا ہے پرائی آگ میں جلنا نہیں آساں خرد مندو یہ جذبہ تو فقط ہم جیسے دیوانوں میں ملتا ہے یہ بے ماضی نیا گھر مسئلوں کا ایک جنگل ہے سکون دل تو بس بوسیدہ دالانوں میں ملتا ہے کوئی چہرہ مکمل ہی نہیں تصویر کیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر تو ہمیں صحرا دکھائی دیتا ہے

    یہ شہر تو ہمیں صحرا دکھائی دیتا ہے یہاں ہر آدمی تنہا دکھائی دیتا ہے وہ راہبر ہو کہ رہزن ہو یا رفیق سفر ہمیں تو ایک ہی جیسا دکھائی دیتا ہے جو خود نمائی کی فرضی بلندیوں پر ہے اسے ہر آدمی بونا دکھائی دیتا ہے نشیب عقل کے زندانیوں کو کیا معلوم فراز دار سے کیا کیا دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    دھجیاں جیب و گریباں کی اڑا دیں ہم لوگ

    دھجیاں جیب و گریباں کی اڑا دیں ہم لوگ آئیے فصل بہاراں کا پتہ دیں ہم لوگ جس کے سائے میں تعصب کی تپش شامل ہو وقت کہتا ہے وہ دیوار گرا دیں ہم لوگ دیکھیں پھر کیسے مٹاتے ہیں مٹانے والے ایک اک شاخ نشیمن سے سجا دیں ہم لوگ اور اگر ہو نہ سکے کچھ بھی اجالوں کی سبیل اک چراغ اپنے لہو سے ہی ...

    مزید پڑھیے

    خود فاصلے ہی وصل کی تحریک ہو گئے

    خود فاصلے ہی وصل کی تحریک ہو گئے تم دور ہو کے اور بھی نزدیک ہو گئے جب سے چھٹا ہے ہاتھ ترا میرے ہاتھ سے سب راستے حیات کے تاریک ہو گئے جن راستوں پہ دوڑ کے ہم تم چلے تھے ساتھ تنہا چلے تو بال سے باریک ہو گئے ان کے بغیر جینا بھی اک جرم ہو گیا لمحے تمام مانگی ہوئی بھیک ہو گئے اتنا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی پھول نہ پھل اور نہ کوئی پتا تھا

    نہ کوئی پھول نہ پھل اور نہ کوئی پتا تھا میں جس کے سائے میں بیٹھا وہ پیڑ ننگا تھا چمک دمک میں تمہارا خلوص ہیرا تھا مرا وجود بہر حال ایک شیشہ تھا عجیب شہر سے گزرا میں رات اے لوگو ہر ایک شخص کے چہرے پہ میرا چہرہ تھا وہ آدمی جسے اپنا سمجھ لیا تو نے وہ بد نصیب تو اپنے لئے پرایا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3