خود فاصلے ہی وصل کی تحریک ہو گئے
خود فاصلے ہی وصل کی تحریک ہو گئے
تم دور ہو کے اور بھی نزدیک ہو گئے
جب سے چھٹا ہے ہاتھ ترا میرے ہاتھ سے
سب راستے حیات کے تاریک ہو گئے
جن راستوں پہ دوڑ کے ہم تم چلے تھے ساتھ
تنہا چلے تو بال سے باریک ہو گئے
ان کے بغیر جینا بھی اک جرم ہو گیا
لمحے تمام مانگی ہوئی بھیک ہو گئے
اتنا ہوا ہے ان کی مسیحائیوں کا ذکر
بیمار چیخ اٹھے ہیں کہ ہم ٹھیک ہو گئے
ہم وہ نشانۂ ستم روزگار ہیں
ہنسنے چلے تو پیکر تضحیک ہو گئے
شاعرؔ نے جب بھی چھیڑا خلوص و وفا کا ذکر
چہرے تمام یاروں کے تاریک ہو گئے