یہ شہر تو ہمیں صحرا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو ہمیں صحرا دکھائی دیتا ہے
یہاں ہر آدمی تنہا دکھائی دیتا ہے
وہ راہبر ہو کہ رہزن ہو یا رفیق سفر
ہمیں تو ایک ہی جیسا دکھائی دیتا ہے
جو خود نمائی کی فرضی بلندیوں پر ہے
اسے ہر آدمی بونا دکھائی دیتا ہے
نشیب عقل کے زندانیوں کو کیا معلوم
فراز دار سے کیا کیا دکھائی دیتا ہے
بسائے رہتا ہے یادوں کی انجمن دل میں
وہ ایک شخص جو تنہا دکھائی دیتا ہے
بتاؤں کیا کہ گزرتی ہے کیا مرے دل پر
چمن میں جب بھی اجالا دکھائی دیتا ہے
یہ دور وہ ہے کہ ہر لمحۂ حیات ہمیں
ہمارے خون کا پیاسا دکھائی دیتا ہے
اسی کے زہر کے مارے ہوئے ہیں ہم سب لوگ
جو دیکھنے میں مسیحا دکھائی دیتا ہے
جہاں پہ ڈوبتے سورج کا عکس تھا لرزاں
وہیں سے چاند ابھرتا دکھائی دیتا ہے
یہ دیکھتے ہی کہا دل نے میرے ساقی کو
یہ ویسا ہے نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے