اے جنوں تیرا ابھی تک نہ مقدر بدلا

اے جنوں تیرا ابھی تک نہ مقدر بدلا
شہر بدلا نہ کسی ہاتھ کا پتھر بدلا


زندگی بخش دی جب قتل مجھے کر نہ سکا
میرے قاتل نے بہت تیز یہ خنجر بدلا


ہو گئی راہ جنوں پھر کسی سازش کا شکار
مجھ کو لگتا ہے ہر اک میل کا پتھر بدلا


میں تو سمجھا تھا یہاں فن کی پرستش ہوگی
چند سکوں کا اچھلنا تھا کہ منظر بدلا


وہ اگر راہ میں کھلتا تو کوئی بات بھی تھی
ہائے افسوس کہ منزل پہ پہنچ کر بدلا


بات تو جب تھی کہ تم خود کو بدلتے یارو
آج تک تم نے ہر اک موڑ پہ رہبر بدلا


میرے دامن میں تو خوابوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا
وہ جو بدلا تو بہت سوچ سمجھ کر بدلا


رنگ و آہنگ کلی پھول پرندے بھونرے
رت بدلتے ہی ہر اک شاخ کا منظر بدلا