دھجیاں جیب و گریباں کی اڑا دیں ہم لوگ

دھجیاں جیب و گریباں کی اڑا دیں ہم لوگ
آئیے فصل بہاراں کا پتہ دیں ہم لوگ


جس کے سائے میں تعصب کی تپش شامل ہو
وقت کہتا ہے وہ دیوار گرا دیں ہم لوگ


دیکھیں پھر کیسے مٹاتے ہیں مٹانے والے
ایک اک شاخ نشیمن سے سجا دیں ہم لوگ


اور اگر ہو نہ سکے کچھ بھی اجالوں کی سبیل
اک چراغ اپنے لہو سے ہی جلا دیں ہم لوگ


ان کی صہبا میں نشہ ہے نہ نگاہوں میں سرور
آؤ محفل میں یہ افواہ اڑا دیں ہم لوگ


یوں بھی کٹ سکتے ہیں یہ تشنہ لبی کے لمحات
بیٹھ کر بزم میں ساقی کو دعا دیں ہم لوگ


سنگ تخریب کی وسعت کو کریں یوں محدود
اک محل شہر میں شیشے کا بنا دیں ہم لوگ