نہ کوئی پھول نہ پھل اور نہ کوئی پتا تھا

نہ کوئی پھول نہ پھل اور نہ کوئی پتا تھا
میں جس کے سائے میں بیٹھا وہ پیڑ ننگا تھا


چمک دمک میں تمہارا خلوص ہیرا تھا
مرا وجود بہر حال ایک شیشہ تھا


عجیب شہر سے گزرا میں رات اے لوگو
ہر ایک شخص کے چہرے پہ میرا چہرہ تھا


وہ آدمی جسے اپنا سمجھ لیا تو نے
وہ بد نصیب تو اپنے لئے پرایا تھا


مرا وجود اندھیروں میں غرق تھا لیکن
جہاں جہاں بھی کوئی زخم تھا اجالا تھا