شارب لکھنوی کی غزل

    ذکر بہار بھی رہا ذکر خزاں کے ساتھ

    ذکر بہار بھی رہا ذکر خزاں کے ساتھ تیری بھی داستاں ہے مری داستاں کے ساتھ ان کا بھی کچھ خیال رہے اہل کارواں جو آ رہے ہیں گرد رہ کارواں کے ساتھ اس وقت رنگ لائے گا افسانۂ وفا دل کا لہو جب آئے گا اشک رواں کے ساتھ ہر چیز اجنبی سی ہے ہر شخص غیر ہے دنیا بدل گئی نگہ مہرباں کے ساتھ شاربؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا

    ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا بن گئے ایک محبت کے فسانے کیا کیا منزل دار و رسن قید ستم دشت بلا پائے ہیں اہل محبت نے ٹھکانے کیا کیا کوئی انداز ندامت کوئی نالہ کوئی اشک ڈھونڈے ہیں چشم کرم تو نے بہانے کیا کیا کبھی آندھی کبھی طوفاں کبھی شعلے کبھی برق میرے گلشن پہ بھی گزرے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شے نہیں یہاں مستقل یہ عجب یہاں کا نظام ہے

    کوئی شے نہیں یہاں مستقل یہ عجب یہاں کا نظام ہے کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے وہ جفا کریں تو جفا کریں میں وفا سے باز نہ آؤں گا انہیں اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے جو ہماری نظریں نہ پا سکیں تو ہماری نظروں کی ہے خطا ترا جلوہ پہلے بھی عام تھا ترا جلوہ ...

    مزید پڑھیے

    داستاں کہہ کے پریشاں دل ناکام نہ ہو

    داستاں کہہ کے پریشاں دل ناکام نہ ہو اس خموشی میں بھی پنہاں کوئی پیغام نہ ہو عشق میں بھی ہے تقاضا مری خودداری کا جو مرے دل کو ملی ہے وہ خلش عام نہ ہو مانگنے ہی کا طریقہ نہیں آتا ہم کو غیر ممکن ہے تری چشم کرم عام نہ ہو پھول کے سائے میں کانٹوں کو بھی رہنے دیجے صبح کی قدر نہ کی جائے ...

    مزید پڑھیے

    اک قیامت ہے جوانی اک قیامت ہے شباب

    اک قیامت ہے جوانی اک قیامت ہے شباب ہر تبسم ایک طوفاں ہر نظر اک انقلاب ہر طرف ایک آہ و زاری ہر طرف ایک اضطراب کتنی سوغاتیں لیے آیا ہے دور انقلاب ساغر و مینا پٹک دے توڑ دے چنگ و رباب دیکھ سر پر آ چکا ہے آفتاب انقلاب عشق کے دستور دنیا سے الگ دستور ہیں اس کی گمنامی میں شہرت اس کی ...

    مزید پڑھیے

    مشکل یہ امتیاز تری راہ گزر میں ہے

    مشکل یہ امتیاز تری راہ گزر میں ہے منزل سفر میں ہے کہ مسافر سفر میں ہے ہوں مضطرب مگر تری صورت نظر میں ہے پہلو بھی اک سکون کا درد جگر میں ہے تھوڑی سی خاک میں نے اٹھا لی زمین سے اب ساری زندگی کا خلاصہ نظر میں ہے اے آفتاب صبح ادھر بھی کوئی کرن مدت سے اک غریب امید سحر میں ہے پوچھو نہ ...

    مزید پڑھیے

    تفکرات زمانہ سے ہو کے بیگانے

    تفکرات زمانہ سے ہو کے بیگانے یہ کس خیال میں الجھے ہوئے ہیں دیوانے ہر ایک ہنستا ہے لیکن یہ کوئی کیا جانے یہ بن گئے کہ بنائے گئے ہیں دیوانے نگاہ عشق میں شاہ و گدا برابر ہیں نگاہ عشق کوئی امتیاز کیا جانے کسی کے اٹھنے سے سونی نہ ہوگی بزم کوئی بہار شمع سلامت ہزار پروانے وہی جہاں ...

    مزید پڑھیے

    غم اٹھاتے ہیں وہی اکثر خوشی پانے کے بعد

    غم اٹھاتے ہیں وہی اکثر خوشی پانے کے بعد جو خزاں کو بھول جاتے ہیں بہار آنے کے بعد زندگی یوں کٹ رہی ہے ان کے ٹھکرانے کے بعد جیسے اک محفل کی حالت شمع بجھ جانے کے بعد اہل کشتی تم کو یہ ہر موج دیتی ہے پیام پاؤ گے ساحل مگر طوفاں سے ٹکرانے کے بعد جو بھی پیاسا آئے اس کی پیاس بجھنا ...

    مزید پڑھیے

    خلوص سجدہ ہر اک حال میں مقدم ہے

    خلوص سجدہ ہر اک حال میں مقدم ہے وہیں پہ دل بھی جھکا دے جہاں جبیں خم ہے ہزار جلووں سے پر نور بزم عالم ہے مگر چراغ محبت کی روشنی کم ہے ہمارے حال پریشاں پہ مسکرا دینا بڑا لطیف یہ انداز پرسش‌‌ غم ہے حیات عشق امیدوں پہ کاٹنے والو خبر بھی ہے کہ امیدوں کی زندگی کم ہے قفس میں تھے تو ...

    مزید پڑھیے

    دنیائے ستم زیر و زبر ہو کے رہے گی

    دنیائے ستم زیر و زبر ہو کے رہے گی جب رات ہوئی ہے تو سحر ہو کے رہے گی تلوار سے جاگے کہ نسیم سحری سے ہشیار مگر روح بشر ہو کے رہے گی بن جائیں گے گل راہ میں بکھرے ہوئے کانٹے ہمت ہے تو تکمیل سفر ہو کے رہے گی یہ حسن تصور مجھے مرنے نہیں دیتا اک دن مری جانب وہ نظر ہو کے رہے گی تم خون تمنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3