ذکر بہار بھی رہا ذکر خزاں کے ساتھ

ذکر بہار بھی رہا ذکر خزاں کے ساتھ
تیری بھی داستاں ہے مری داستاں کے ساتھ


ان کا بھی کچھ خیال رہے اہل کارواں
جو آ رہے ہیں گرد رہ کارواں کے ساتھ


اس وقت رنگ لائے گا افسانۂ وفا
دل کا لہو جب آئے گا اشک رواں کے ساتھ


ہر چیز اجنبی سی ہے ہر شخص غیر ہے
دنیا بدل گئی نگہ مہرباں کے ساتھ


شاربؔ یہ جانتا ہوں کہ دنیا ہے بے وفا
چلنا پڑے گا پھر بھی اسی کارواں کے ساتھ