شارب لکھنوی کے تمام مواد

23 غزل (Ghazal)

    ذکر بہار بھی رہا ذکر خزاں کے ساتھ

    ذکر بہار بھی رہا ذکر خزاں کے ساتھ تیری بھی داستاں ہے مری داستاں کے ساتھ ان کا بھی کچھ خیال رہے اہل کارواں جو آ رہے ہیں گرد رہ کارواں کے ساتھ اس وقت رنگ لائے گا افسانۂ وفا دل کا لہو جب آئے گا اشک رواں کے ساتھ ہر چیز اجنبی سی ہے ہر شخص غیر ہے دنیا بدل گئی نگہ مہرباں کے ساتھ شاربؔ ...

    مزید پڑھیے

    ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا

    ہم پہ رکھے گئے الزام نہ جانے کیا کیا بن گئے ایک محبت کے فسانے کیا کیا منزل دار و رسن قید ستم دشت بلا پائے ہیں اہل محبت نے ٹھکانے کیا کیا کوئی انداز ندامت کوئی نالہ کوئی اشک ڈھونڈے ہیں چشم کرم تو نے بہانے کیا کیا کبھی آندھی کبھی طوفاں کبھی شعلے کبھی برق میرے گلشن پہ بھی گزرے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی شے نہیں یہاں مستقل یہ عجب یہاں کا نظام ہے

    کوئی شے نہیں یہاں مستقل یہ عجب یہاں کا نظام ہے کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے وہ جفا کریں تو جفا کریں میں وفا سے باز نہ آؤں گا انہیں اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے جو ہماری نظریں نہ پا سکیں تو ہماری نظروں کی ہے خطا ترا جلوہ پہلے بھی عام تھا ترا جلوہ ...

    مزید پڑھیے

    داستاں کہہ کے پریشاں دل ناکام نہ ہو

    داستاں کہہ کے پریشاں دل ناکام نہ ہو اس خموشی میں بھی پنہاں کوئی پیغام نہ ہو عشق میں بھی ہے تقاضا مری خودداری کا جو مرے دل کو ملی ہے وہ خلش عام نہ ہو مانگنے ہی کا طریقہ نہیں آتا ہم کو غیر ممکن ہے تری چشم کرم عام نہ ہو پھول کے سائے میں کانٹوں کو بھی رہنے دیجے صبح کی قدر نہ کی جائے ...

    مزید پڑھیے

    اک قیامت ہے جوانی اک قیامت ہے شباب

    اک قیامت ہے جوانی اک قیامت ہے شباب ہر تبسم ایک طوفاں ہر نظر اک انقلاب ہر طرف ایک آہ و زاری ہر طرف ایک اضطراب کتنی سوغاتیں لیے آیا ہے دور انقلاب ساغر و مینا پٹک دے توڑ دے چنگ و رباب دیکھ سر پر آ چکا ہے آفتاب انقلاب عشق کے دستور دنیا سے الگ دستور ہیں اس کی گمنامی میں شہرت اس کی ...

    مزید پڑھیے

تمام