خلوص سجدہ ہر اک حال میں مقدم ہے

خلوص سجدہ ہر اک حال میں مقدم ہے
وہیں پہ دل بھی جھکا دے جہاں جبیں خم ہے


ہزار جلووں سے پر نور بزم عالم ہے
مگر چراغ محبت کی روشنی کم ہے


ہمارے حال پریشاں پہ مسکرا دینا
بڑا لطیف یہ انداز پرسش‌‌ غم ہے


حیات عشق امیدوں پہ کاٹنے والو
خبر بھی ہے کہ امیدوں کی زندگی کم ہے


قفس میں تھے تو چمن کے لئے تڑپتے تھے
چمن میں آئے تو اہل چمن کا ماتم ہے


بشر کے در پہ جبین بشر کا جھک جانا
قسم خدا کی یہ توہین ابن آدم ہے


وہ دل چرا کے نگاہوں سے چھپ گئے شاربؔ
نگاہ و دل سے مگر فاصلہ بہت کم ہے