کوئی شے نہیں یہاں مستقل یہ عجب یہاں کا نظام ہے

کوئی شے نہیں یہاں مستقل یہ عجب یہاں کا نظام ہے
کبھی دھوپ ہے کبھی چھاؤں ہے کبھی صبح ہے کبھی شام ہے


وہ جفا کریں تو جفا کریں میں وفا سے باز نہ آؤں گا
انہیں اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے


جو ہماری نظریں نہ پا سکیں تو ہماری نظروں کی ہے خطا
ترا جلوہ پہلے بھی عام تھا ترا جلوہ آج بھی عام ہے


یہ مٹا چکی مری زندگی تو کرم سے اپنے سنوار دے
وہ مری نگاہ کا کام تھا یہ تری نگاہ کا کام ہے


وہ حرم ہو یا کہ ہو بت کدہ کہ وہ سنگ در ہو حبیب کا
جہاں تیری یاد نہ آ سکے وہاں سجدہ کرنا حرام ہے


یہ خبر ہے زیست کا کارواں رہ عشق میں ہے رواں دواں
مگر اس کی کوئی خبر نہیں کہ سفر کہاں پہ تمام ہے


اسے زندگی کا لقب دیا کہ جو ایک خواب فریب ہے
اسے موت کہتا ہے بے خبر کہ جو زندگی کا پیام ہے


نہیں کامیاب عمل اگر تو عدم میں ہو کہ وجود میں
نہ یہی سکوں کا مقام ہے نہ وہی سکوں کا مقام ہے