شارب لکھنوی کی غزل

    کوئی کافر ہمیں سمجھے کہ مسلماں سمجھے

    کوئی کافر ہمیں سمجھے کہ مسلماں سمجھے ہم تو اے عشق تجھے حاصل ایماں سمجھے لاکھوں مسلے ہوئے غنچے نہیں دیکھے ہم نے چند ہنستے ہوئے پھولوں کو گلستاں سمجھے خود بہ خود وقت پہ ہو جاتے ہیں ساماں کیونکر کچھ جو سمجھے تو ہمیں بے سر و ساماں سمجھے دعوت عام ہے اک راہ وفا ہے میں ہوں وہ مرے ...

    مزید پڑھیے

    تاروں میں چھپ گئے کہ گلوں میں نہاں رہے

    تاروں میں چھپ گئے کہ گلوں میں نہاں رہے میری نظر نے ڈھونڈھ لیا تم جہاں رہے گزرے ہوئے زمانے کا کچھ تو نشاں رہے گر آشیاں نہیں تو غم آشیاں رہے یہ اور بات ہے کہ نظر سے نہاں رہے لیکن وہ ساتھ ساتھ رہے ہم جہاں رہے اس کو کسی مقام پہ محدود کیوں کرو کون و مکاں بنا کے بھی جو لا مکاں رہے اک ...

    مزید پڑھیے

    تبسم لب پر آنکھوں میں نمی ہے

    تبسم لب پر آنکھوں میں نمی ہے خدا جانے یہ غم ہے یا خوشی ہے جو منزل آج اہل ہوش کی ہے وہ دیوانوں کی ٹھکرائی ہوئی ہے کہاں جائے تھکا ماندہ مسافر تو ہی سایہ تو ہی دیوار بھی ہے ہزاروں ہیں سکون دل کے ساماں یہ دنیا پھر بھی گھبرائی ہوئی ہے اندھیرے چھو نہیں سکتے ہیں مجھ کو کہ میرے ساتھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3